راشد سیف اللہ ندوی:
پورے اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ نیپال میں مسلمانوں کی آمد کب شروع ہوئی، تاہم یہ کہنا قریب از حقیقت ہوگا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد ہی نیپال میں انکے بڑھتے قدم کا پتہ دیتی ہے، کیونکہ حدودالعالم نامی عربی کتاب جو 783ء میں منظر عام پر آئی تھی اس میں نیپالی مشک کا عرب میں پایا جانا مذکور ہے۔
1857ء میں ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگیں چل رہی تھی اس موقع پر نیپالی حکومت نے اپنی فوج بھیج کر انگریزوں کی مدد کی تھی، جس سے خوش ہو کر انگریز نے ان علاقوں اودھ کے نواب کی ریاست بانکے، بردیا، کیلالی، اور کنچن پور کو دوبارہ واپس کردیا جس کو نیپال نے سگولی معاہدہ میں کھو دیا تھا، اس لئے زمین کے ساتھ مسلمان بھی نیپال کو تحفہ میں مل گیا جو وہاں پہلے سے آباد تھے، جنکی حفاظت ملک نیپال کی اولین ترجیح ہونی چاہئے، اس کے برخلاف 1324ء میں دلی کے بادشاہ غیاث الدین تغلق نے ترائی علاقہ کی خودمختار ریاست ترہٹ کی راجدھانی سمرون گڑھ پر حملہ کیا تھا، پھر کچھ ہی دنوں کے بعد سلطان دلی واپس چلا گیا اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نیپال میں مسلمانوں کی آمد عارضی طور پر شروع ہو گئی تھی، لیکن انیسویں صدی میں نیپالی حکمرانوں کی ایما پر ہندوستانی سرحدی علاقوں کے لوگوں نے نیپال میں زراعت کرنا شروع کر دیا اور وہ لوگ ہمیشہ کے لئے یہیں کے رہ گئے اس میں مسلم ہندو دونوں شریک تھے، اس لیے ترائی علاقہ میں ہندومسلم ساتھ ساتھ آباد ہوگئے،
تاہم کاٹھمنڈو اور پہاڑی علاقوں میں مسلمانوں کی آمد تجارتی غرض سے ہوئی جو نیپال کے راستے تبت کا قصد کرتے تھے، اور وہیں تجارتی سرگرمیوں کو بحال رکھتے تھے، اور کاٹھمنڈو میں چند دن قیام کے بعد اپنے وطن کشمیر لوٹ جاتے تھے، لیکن ایک دن ایسا آیا کہ نیپال کے راجا رتن تل نے تاریخی دستاویز کے ساتھ مسلمانوں کو مستقل طور پر سکونت پزیر ہونے کی اجازت دے دی۔ یہی وقت ہے کشمیری اور تبتی مسلمانوں کا کاٹھمنڈو میں قیام پذیر ہونے ،سال 1768ءمیں پرتھوی نارائن شاہ نے بارودی اسلحہ بنانے والے مسلمانوں کو کاٹھمنڈو میں آباد کیا، جو ملک کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرتے تھے،
کاٹھمنڈو کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی مسلمان مختلف مدتوں میں آکر آباد ہوئے۔
نیپال کا جغرافیہ وتاریخ کے مصنف ماہر ارضیات جناب حفظ الرحمن علیگ صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سولہویں صدی عیسوی میں گو رکھا ریاست کے حکمران ہندوستانی مسلمانوں کو فوجی اسلحہ بنانے کے لئے آباد کیا تھا، یہ مسلمان سپاہیوں اور آرمیوں کو بارودی اسلحہ چلانے کی ٹریننگ دیتے تھے، اور انکی فوجی تربیت بھی کرتے تھے،لیکن آہ! تجھےآبا سے اپنی کوئی نسبت ہونہیں سکتا، کہ تو گفتار وہ کردار تو ثابت وہ سیارہ،
اس لئے ہم نیپالی مسلمانوں کو اپنی عظمت رفتہ کو واپس لانے کے لئے اپنے آباواجداد کے نیپال میں تاریخی کارناموں کو سامنے لانا ہوگا ، اس کا مطالعہ کرنا ہوگا انہیں کے شایانِ شان مقام پیدا کرنا ہوگا، اور اپنے بچوں طالب علموں کو انکے تاریخ سے واقف کرانا ہوگا،
مذکورہ بالا تمام تاریخوں کو دیکھ کر نیپالی مسلمان یہ فخر سے کہ سکتے ہیں کہ ہم آئے نہیں ہیں بلائے گئے ہیں،
#راشد سیف اللہ ندوی
0 Comments